۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
News ID: 379666
16 اپریل 2022 - 20:23
ماہ رمضان اور تربیت کے ایام

حوزہ/ آج اگر ہم مسلمان قوم کی بات کریں تو معلوم ہوگابچے اور نوجوان مذہبی امور سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ اس میں مذہبی اختیارات کی کوتاہی بھی شامل ہے ، ساتھ میں دیگر وجوہات بھی۔مذہبی افراد خود کہیں نہ کہیں احساس کمتری کا شکار ہیں۔ بچوں اور جوانوں کو تسلی بخش جوابات نہیں دے پاتے جس سے نوجوان نسل مذہب سے گریز کررہی ہے ۔

تحریر: عظمت علی (لکھنؤ)

حوزہ نیوز ایجنسی رمضان المبارک کے مبارک ایام چل رہے ہیں۔الحمداللہ! مساجدمیں نمازیوں سے صفیں بھری ہوتی ہیں ،اچھی بات یہ کہ وقت سے پہلے مساجد آباد ہوجاتی ہیں۔نمازی ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں،تلاوت کلام مجیدکرتے ہیں ،اللہ کی آیات میں غور وفکر کرتے ہیںاور ثواب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔مومنین کرام جہاںاتنے تعمیری کام کرتے ہیں، وہیںبچوں کی تربیت بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہوجاتی ہے ۔بچوںکوماہ رمضان میں تربیت دینے کی ضرورت ہے ۔ماہ رمضان کا سب سے اہم مقصد خوف الٰہی ہے ، یعنی اللہ سے ڈرنا۔بچوں کے دل جب اللہ کے نام مطمئن ہوگے اور برائی کے وقت خوف خدا کا تصور آجائے گا تو مستقبل نیکی پر تعمیر ہوگا۔سماج کی ترقی اور قوم و ملت کی فلاح و بہبود پر۔
بچوں کے دل بہت نرم ہوتے ہیں اور چیزوں کو جلدی سے قبول کرلیتے ہیں ۔نوجوانوں کے سلسلے میں امام علی علیہ السلام فرماتے:یقینا نوجوانوں کا دل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس میں ڈال دی جائے اسے قبول کرلیتا ہے ۔ (نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر: ۳۱)
ایک طرف نوجوان کا دل چیزوں کو قبول کرلیتا ہے تو دوسری جانب بچپن کی یادیں ،بھولے نہیں بھولائی جاتیں، تادیریاد رہتی ہیں۔کسی بھی قوم کی تعمیر میں بچوں کی تربیت اور نوجوانوں کی پرورش کو بہت ہی اہم سمجھاگیاہے ۔ ملک کی ترقی کا ایک بڑا حصہ نوجوانو ں کے رجحانات پر مبنی ہوتا ہے ۔ دین ومذہب نے بھی بچوں اورنوجوانوں کی جانب خاص توجہ مبذول کرائی ہے ۔
آج اگر ہم مسلمان قوم کی بات کریں تو معلوم ہوگابچے اور نوجوان مذہبی امور سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ اس میں مذہبی اختیارات کی کوتاہی بھی شامل ہے ، ساتھ میں دیگر وجوہات بھی۔مذہبی افراد خود کہیں نہ کہیں احساس کمتری کا شکار ہیں۔ بچوں اور جوانوں کو تسلی بخش جوابات نہیں دے پاتے جس سے نوجوان نسل مذہب سے گریز کررہی ہے ۔ ماہ رمضان المبارک میں مساجد کی صفوں میں دیکھیں تو جوانوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے ۔بچے بھی خاصی تعداد میں نمازجماعت میں شریک ہوتے ہیں ۔مگر بعض مساجد میں ان کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ بے چاروں کو صف نماز سے الگ تھلگ کردیا جاتا ہے جس سے بجائے اس کے کہ وہ مسجد سے کچھ سیکھیں، شرارت کرنے لگتے ہیں۔ سب بچے ایک یکجا ہوجاتے ہیں تو انہیں شرارت کرنے کا مزید موقع فراہم ہوجاتا ہے ۔ اگر ہر شخص صرف اپنے ہی بچوں کا خیال رکھے اور اپنے پاس بٹھائے تو نہایت سادگی اور تہذیب سے رسم عبادت منتقل ہوتی رہے گی۔ صف نماز بھی مساوات کا بہترین نمونہ نظر آئے گا۔کم سے کم بچوں کو ذہنی طور پر سکون اور فخر تومحسوس ہوگا۔انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا۔ انہیں شرارت کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ قیام ، رکوع اور سجود ہی سہی مگر ترتیب نماز اور سکون قلب تو میسر ہوہی جائے گا۔اس لیے بچوں اور نوجوانوں پرخاص توجہ کی ضرورت ہے ۔
یہاں تک بات صف مسجد کی تھی ۔ مذہبی تعلیمی اداروں میں دیکھ لیں ، وہاں بھی بچوں کی کوئی پرورش نہیں ، نہ ہی تعلیمی بالیدگی پر زور ۔ استاد کا معقول انتظام نہیں ،والدین استاد پر اور استاد مالی تعاون پراور بچے استاد پر موقوف ہوتے ہیں ۔ اسی طرح وقت کا ضیاع ہوتاہے اور پھر مذہب کو پسماندہ ٹھہرا دیا جاتا ہے ۔
سماج کے بچے قوم کا مستقبل ہیں، انہیں محفوظ رکھیں ، پرورش کریں اور ہنرمند بنائیں، بروقت کام آئیں گے ۔ اگر یہی بچے کھیل کود اور دیگر تفریحی پروگرامز میں اپنا سارا وقت صرف کردیتے ہیں تو قوم کا بھلا ہونا مشکل ہے ،علم اور ہنرمند ی دونوں نہایت ضروری ہے۔ بنیاد مضبوط ہوگی تو عمارت بھی مضبوط رہے گی۔بچے اور نوجوان قوم کی بنیاد ہیں ، اس لیے انہیں مضبوط بنانے کی سخت ضرورت ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .